تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | کسی عالم دین کے ساتھ شاید ہی ایسا ہوا ہوگا کہ جس کی وفات 30 سال قبل ہوئی اور وہ آج بھی بڑی محبت، عزت، احترام و عقیدت سے یاد کیا جا رہا ہو۔ راقم الحروف کا مُراد مبرُور و مبرا، متدین و متحمل، مخدوم و متبحر، مولانا مفتی سید محمد عباس ابن سید عبد الکریم مرحوم سے ہے۔ آپ کی پیدائش 1925 عیسوی میں سر زمین مظفرپور، بہار میں ہوئی۔ یہ قابل ذکر، فخر و مُباہات ہے کہ آپ کا سلسلہ نسب امام علی رضا علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ کم سنی میں پدر بزرگوار کے سایہ عطوفت سے محروم ہو گئے۔ آپ کو بچپن سے ہی حصول علم اور کتب بینی کا بے پناہ ذوق و شوق تھا۔ عشق علم میں بہت ساری پریشانیوں کو عبور کرتے ہوئے تعلیمی مراحل طے کئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ عباسیہ، پٹنہ (بہار) میں حاصل کی۔ اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے شہر لکھنؤ تشریف لائے اور جامعہ سلطانیہ سے 1964 میں صدرالافاضل کی اعلٰی سند حاصل کی۔
آپ آیات کے کردار، نجات دہندہ بنی نوع کی تصویر، قوم کی شفقتی رہنمائی، عنایت اعلٰی کا مجسمہ، خوبیوں اور فضیلتوں میں کثرت، صبر، شکر، جذبہ، نصیحت کا پیکر، ہمدردی، خلوص و نرمی ان کے آلات، مومنوں کا تاج، شہر مظفرپور کی ناک جن کی زبان آم سے بھی زیادہ شیریں اور لیچی سے بھی زیادہ رسیلی، متحرک اور قضا وقدر والا، مقام ذکر کے انس و جن کی دھڑکن، قوم کا بےمثال و عالیشان سر پرست، لامتناہی چراغوں میں یکتا جس نے ہزاروں ذہنوں، روحوں، کرداروں، اخلاقوں، عبادتوں، فکروں کو سجایا، سنوارا، عروج بخشی اور قابل رقص بنایا۔ روشن خیالی، اثر پزیری، جد و جہد کی تحریک، دور بینی اور حکمت عملی آپ کی صلاحیت، ہُنر و فکر ہر سانس اور قلب کی حرکت میں شامل تھی۔ حقیقت میں ایک نمونۂ کائناتی کردار جو دنیا میں ایک بشر کی شکل میں مبعُوث اور جو کام پروردگار نے اسے سپرد کیا یا یوں کہا جائے کہ انہیں انتخاب کیا، اس کام کو بحسن و خوبی انجام دے کر حقیقی و ابدی زندگی کو گلے لگا لیا۔
آپ کی مفید اور قیمتی زندگی کا ہر لمحہ، ہر پل، اور ہر شب و روز قوم و ملت کی بیداری، ان کے مقصد خلقت، ایمانداری، دیانتداری، تقویٰ اور پرہیز گاری کی طرف رغبت کے لیے مہم و بیداری کے لیے وقف کر رکھی تھی جو آج بھی اپنے آب و تاب سے رواں و دواں ہے یعنی انہوں نے اپنی زندگی کے دوران جس طرح امر با لمعروف و نہی عن المنکر قوم و ملت کی تبلیغ کے لیے اپنا اصول، مقصد اور ذمہ داری سمجھا اور اس پر تاحیات گامزن رہے۔ وہ مظفرپور اور اعتراف کے شہر، تحصیل، قصبہ، محلہ و کالونی میں ان کی تبلیغ و تربیت کے اثرات مرتب ہوئے۔ وہ آج بھی لوگوں کے کردار، اخلاق و عمل سے عیاں ہیں۔ حالانکہ 30 سال کے عرصہ میں مکین مظفرپور حصول علم کے بعد اعلٰی تعلیم کی حصولیابی کے لیے اور تلاش معاش کے سلسلے سے ہجرت کر گئے۔ بعد ازاں اگر کوئی شخص اپنے دوست و احباب سے دوسرے شہر میں ملاقات ہوتی ہے یا موبائل کے ذریعہ گفتگو کرتے ہیں تو ضرور مولانا مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ کا تذکرہ کرنے میں احساس شادمانی کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ باہمی گفت و شنید کے دوران اپنے جسم میں روحانی کیفیت محسوس کرتا ہےاور آپ کی تصویر آنکھوں کے سامنے ہوتی ہے جیسے وہ منمبر سے عزاداروں کو خطاب کر رہے ہیں یا محراب سے نماز جمعہ کا واعظ بیان کر رہے ہیں۔
آپ نے اپنی زندگی کے دوران قوم و ملت میں تبلیغ و تربیت کے لیے امربالمعروف و نہی عن المنکر کو لازمی قرار دیا۔ اور اپنے دور میں اس نوعیت کا کام کرنے والے مستبد تھے۔ بہر کیف اس کے خاطرخواہ اثرات مرتب ہوئے وہ آج بھی لوگوں کے کردار میں نمایاں ہے چاہے وہ سرزمین ہند کے کسی خطے میں مقیم ہو یا بیرون ممالک میں تعلیم یا روزگار کی وجہ سے ہجرت کر گئے ہوں۔ آپ کی فضیلت، عظمت و کمالات کے قصیدے لوگوں کی زبان پر ہے۔
مولانا مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ قرآن، تفسیر، حدیث، شرح حدیث، منطق، اصول فقہ، فلسفہ، خطابت اور دیگر علوم میں ماہر تھے۔ سید علی باقر (جی ایم - پرو جیکٹس) کا کہنا ہے کہ مولانا مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ ایک عظیم و نایاب دینی عالم تھے۔ وہ اعلٰی درجہ کے مبلغ و متقی تھے۔ ان کے اصلاحی، سماجی اور اخلاقی کارنامے رہتی دنیا تک مشعل راہ بنے رہیں گے۔ واقعی میں جس نے اتباع کیا وہ کامیاب ہو گیا۔ ہمارے قوم کے لوگ آج بھی راہ راست پر دکھائی دے رہے ہیں یہ انہیں کی دی ہوئی تعلیم و تربیت کا ثمرہ ہے۔ مولائ قاسم حسین صاحب مولانا مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ کے حسب و نسب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہل علم و حلم، کردار و عمل اور حقیقت و کارنامے کبھی پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ اپنے لازوال علم سے لوگوں کی زندگی کو نہ صرف منور، معطر و معراج بخشی بلکہ اپنے علم و عمل سے بنی نوع انسان کو علم کے ذریعے مفید و کامل بنانے میں جو کاوشیں کی ہیں ان کے یہ کارنامے انہیں کبھی مرنے نہیں دینگے۔ راقم الحروف، سید قمر احمد رضوی، سید شبر جعفری، سید عارف حسین، سید حسن عباس اور سید وارث حسین وغیرہ شاہدین میں سے ہیں کہ ظہرین و مغربین کی نماز کے بعد درس قرآن میں سمجھایا کرتے تھے کہ قرآن مجید لوگوں کی ہدایت کے لیے دلیلوں کا مجموعہ اور یقین کرنے والوں کے لیے ہدایت، رحمت، شفا ٕ ہے۔ ام الکتاب میں فصاحت، بلاغت، نظم، نسق، اخلاقیات، معاملات، معاشرت، تمدن کے ساتھ پیشین گوئیاں و تاریخی حقائق اور عبرت و نصیحت وغیرہ کے انمول موتی بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ تمام ظاہری و مخفی علوم کا مخزن ہے۔ جو کتاب اتنی خوبیوں کا مخزن ہے تو اسے صحیح طریقے سے پڑھنا سیکھنا بیحد ضروری ہے۔ہملوگ مولانا مفتی صاحب کے پیر، ہاتھ، جسم اور سر دباتے رہتے اور وہ بڑی محبت، شفقت اور خلوص سے اس انداز سے بتاتے جیسے چڑیا اپنے بچوں کے منھ میں دانہ ڈال رہی ہو۔ ہملوگوں کو بھی ایسا احساس ہوتا جیسے کے وہ دہن میں شہد ڈال رہے ہوں اور ذہن و قلب میں اُترتا جارہا ہو۔ الحمدللہ، بعد ظہرین یا مغربین، باوضو، خانہ خدا اور کتاب اللہ کو ذہن و قلب تک پہنچا دیا۔ اس بات کی تصدیق اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی امامت میں جماعت میں شامل ہوکر نماز کی ادائیگی نے وہ کمال دکھایا کہ آج وہ ابدی نیند سو رہے ہیں اور زیادہ تر لوگ کم از کم ہزار دو ہزار کلومیٹر دور ہیں، آب و ہوا تبدیل ہوئ، زبان بدلی، نئ ثقافت میں زندگی گزار رہے ہیں اور زمانہ بدلا لیکن ایمان اور اخلاق میں کوئی گراوٹ اور نہ مولانا مفتی صاحب کی یاد میں کمی آئی جس نے دینی تعلیم و تربیت سے مزین کیا۔ واقعی میں ایسے ہی عالم کو وارث رسولؐ کہا جاتا ہے۔
مولانا مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ 1946 سے 1950 عیسوی تک محلہ کمرہ، مظفرپور کی جامع مسجد موقوفہ نواب محمد تقی خاں میں امام جمعہ و جماعت رہے۔ 1950 عیسوی میں ٹانگانیا (اب تانزانیا) تشریف لے گئے جہاں 'شہرلنڈی' میں پیش نماز کی حیثیت سے خدمت انجام دیا۔ دس سال پیش نمازی کے بعد 1960 میں وہاں سے واپس تشریف لائے۔ 1961 عیسوی میں دوبارہ افریقہ چلے گئے جہاں 'مناما' میں پیش نماز رہے۔ بہت کم وقفہ میں ہی سر زمین مظفرپور اور وہاں کےمصلح کی محبت میں محلہ کمرہ کی جامع مسجد کے لیے تشریف لے آئے اور آخری عمر تک امام جمعہ والجماعت کے عہدہ پر فائز رہے۔
آپ جب تک باحیات رہے عزاداری کے فروغ میں منہمک رہے۔ عزاداری کو کسی طرح کے شرک و بدعات سے پاک و محفوظ رکھا۔ ماتم و سینہ ذنی میں حصہ لیتے۔ نوحہ خوانی بھی کیا کرتے۔ آپ کی نگرانی میں مجلس، جلوس، تازیہ داری، اور آگ پر ماتم وقت کی پابندی سے ہوتا رہا۔ عزاداری میں رسم و رواج کے نام پر کسی طرح کی بدعت شامل کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ آپ عشرہ محرم الحرام کی مجلس ہر سال روایتی انداز میں امام بارگاہ، سید محمد تقی خاں میں پڑھتے تھے۔ عزادار سید الشہداء ان کی تقریر کی سماعت کے لیے پابندی وقت سے حاضر ہوتے۔ آپ کے ذریعے بیان کئے جانے والے فضائل و مصائب عزاداران کرب و بلا کو حفظ تھے، خاص کر آٹھ محرم کی حضرت عباس علمدار کی دفاعی جنگ، امام حسینؑ کا حضرت زینبؑ کو پیغام بھیجوانا کے بھائی جلال میں آگیا ہے، بھائی عباس کو علم دینا، نصرمن اللہ والفتحن قریب کو مٹا کر ان للہ وانا الیہ راجعون لکھنا، نہر فرات پر بھیجنا، علم کا کبھی جھکنا اور کبھی ظاہر ہونا۔ اس کے بعد شب عاشور کی مجلس، امام حسین علیہ السلام کا خیمہ سے رخصت ہونا، پڑانا لباس زیب تن کرنا، سیدانیوں کو سلام آخر کہنا، ماں کی کنیز فضہ آپ پر بھی میرا سلام، خیمہ کا پردہ کبھی اُٹھتا ہے، کبھی جھکتا ہے، جیسے بھرے گھر سے جنازہ نکل رہا ہو۔ میمنا،میسرا اور قلب لشکر پر حملہ بیان کرنے کا طریقہ آپ کا مخصوص انداز اور لب و لہجہ ہوتا تھا۔ راقم الحروف ان کی مجالس کی ترجمانی کر رہا ہے اور آنکھوں سے اشک جاری ہے کیونکہ 30 سال قبل کا وہ منظر و سما ٕ دکھائی دے رہا ہے کہ وہ منمبر افروز ہیں، شب عاشور کی نصف سیاہ ہولناک شب، عزادار سسکتے بلکتے، ہاتھوں کو سر، رخسار و سینے پر پیٹتے، ذریح پکڑ کر گریہ و زاری کرتے ہوئے نظروں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ راقم الحروف خود گواہ ہے کہ وہ بارہا منمبر سے کہا ہے کہ "میں نے 36 ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔" اور حقیقت بھی ہے کہ ان کا علم مجلسوں، جمعہ کے خطبات اور اہل سنت کے یہاں کے ملاد النبی کی تقریریں گواہ ہیں۔
مولانا مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ ایک ایسے واحد عالم گزرے ہیں جو شیعوں، سنیوں اور تمام انسانوں کے درمیان مقبول تھے اس کے ساتھ وہ جنوں کے درمیان بھی بہت مقبول تھے۔ شاید ہی قارئین بغیر تفصیل پڑھے ہوئے یقین، اعتماد و اتفاق کریں کہ کوئی عالم کس طرح جنوں میں مقبولیت حاصل کر سکتا ہے۔ اور جنوں کے درمیان مقبولیت کے کیا پختہ شواہد ہیں؟ اس لیے لازمی ہے کہ راقم الحروف وہ واقعہ تحریر کرے جس کو پڑھ کر قارئین مطمئن ہو سکیں۔
بانیان مجالس جو جن برپا کرتے تھے، ان کی مجلسوں میں شریک ہونا اور مجلس کو خطاب کرنا مولانا مفتی محمد عباس صاحب قبلہ کے لیے عام و معمولی بات تھی۔ محلے کے ایک دو بندے ان کے ہمراہ سدا مجلس میں جایا کرتے تھے۔ ساتھ جانے والے کو مقام خاص سے پہلے ہی روک دیتے اور وہ خود جنگل، سحرا کی طرف چلے جاتے۔ مجلس پڑھ کر لوٹتے، ساتھ میں بہترین تبرک لاتے۔ قارئین کی معلومات کے لیے اس واقعہ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے لکھنا ضروری ہے کہ ایک شب وہ بستر پر خوابیدہ تھے۔ دقل باب ہوا، دروازہ کھولا، سامنے جن کھڑے تھے۔ حاضر جن نے گزارش کی کے مجلس پڑھنے چلنا ہے۔ مولانا مفتی نے کہا 'ابھی تو نصف شب ہے۔ کوئی گاڑی نہیں ہے؟ جن نے کہا "حضور آنکھ بند کیجئے، بس کیا تھا وہ لشکری پیر، داؤد پور (مظفرپور ) پہنچ گئے۔ منمبر، فرش اور فرش عزا پر سبھی جن عزادار سید الشہداء کے طور پر موجود تھے۔ جنوں کے درمیان مجلس کو خطاب کیا۔ مجلس اختتام ہوئی۔ قبلہ سے آنکھ بند کرنے کو کہا گیا۔ آنکھیں بند کی اور اپنے گھر پہنچ گئے۔ محلہ کمرہ، شیعہ جامع مسجد میں بھی ان کے پاس جنوں کی آمد، ملاقاتیں اور باتیں ہوا کرتی تھیں۔ مولانا مفتی صاحب نمازیوں کو تنبیہ کر دیا تھا کہ نئے چہروں سے کچھ مت کہنا ورنہ پچھتاؤگے اور ویسا ہی ایک دو دفعہ ہوا بھی۔ اس کے علاوہ امام بارگاہ میں بھی محرم الحرام اور صفر المظفر کے ایام میں نصف شب کے بعد جنوں کی مجلس منعقد ہوا کرتی تھی۔ آدھی رات کو یا حسین! یا حسین! زبردست ماتم کی صدا گونجتی تھی۔ راقم الحروف اور کئی دیگر اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں۔ مولانا مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ جنوں کے ذریعے برپا کی جانے والی مجلس کو خطاب کیا کرتے تھے، انہیں آپ کی مجلسیں پسند تھیں۔ جن آپ کے شیدائی تھے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں جس مقام پر آپ جنوں کی مجلس پڑھا کرتے تھے اسی مقام ، لشکری پیر، داؤد پور (مظفرپور) میں اپنے جسد خاکی کو دفن کرنے کی وصیت کر دی تھی اور اسی مقام پر دفن کئے گئے جبکہ منمبر سے پڑھا کرتے تھے کہ قدیمی قبرستان میں دفن ہونا بہتر ہے کہ وہاں سے عذاب اُٹھا لیا جاتا ہے۔
ایک خصوصی واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ آپ نماز میں مشغول تھے اور اہلیہ کے لباس میں کسی وجہ سے آگ لگ گئی۔ لوگ چیختے چلاتے رہے لیکن آپ نے اپنی نماز ترک نہیں کیا۔ نماز مکمل کرنے کے بعد ہی اپنی اہلیہ کا حال و احوال جانا اور بولے "انہیں جل کر ہی مرنا ہے۔" جیسے کہ انہیں الہام ہو چکا تھا۔ نامحرم اور بے پردگی کی وجہ سے اسپتال میں داخل نہ کرایا۔ تین دن کے بعد زخم کا تاب برداشت نہ کر سکیں اور اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
آج کل وقف جائیداد، وقف جائیداد کی لوٹ مار، اس میں خرد برد، وقف جائیداد کی خرید و فروخت، وقف املاک پر ناجائز قابض ہو جانا معمولی و عام بات ہے۔ اس موضوع پر مولانا مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ اپنے ہی امام بارگاہ اور جامع مسجد کے متولی سے بہت پریشان تھے۔ نواب محمد تقی خاں کی وقف جائیداد کی خرید و فروخت میں متولی کے ملوث ہونے کی خبر سے واقف تھے۔ ان کا ماہانہ تنخواہ بھی بہت قلیل کر رکھا تھا۔ اسی وجہ سے احتجاج و ناراضگی عام کرنے کے لیے مسلسل تین روز تک نماز جماعت سے غیر حاضر رہے۔ لیکن خوف خدا، عشق رسولؐ، مودت اہلبیتؑ اور نمازیوں کی گزارش پر اپنے ارادہ اور فیصلہ کو ترک کر نماز جماعت قائم کر دی۔ متولی مرحوم کے بعد ان کے صاحبزادے متولی بنائے گئے۔ یہ کوشش پیروی، گھونس اور طرفداری کا نتیجہ تھا۔ وہ بھی اپنے والد مرحوم کے نقشے قدم کی پیروی کرتے رہے جبکہ مولانا مفتی صاحب کا جملہ عوام الناس کی زبان پر ہے "متولی کو جہنم واصل ہی ہونا ہے۔"
آخرکار یہ علم و فضل کا آفتاب 22 ذالحجتہ 1412 ہجری بمطابق 1992 عیسوی میں بروز پنجشنبہ سرزمین مظفرپور پر غروب ہو گیا، مجمع کی ہزار آہ و بکا ٕ کے ہمراہ جنازے کو کربلا لشکری پیر داؤدی پور، مظفرپور میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
اگر یہ نہیں لکھا گیا تو مندرجہ بالا تحریر حروف کی شکل میں ہوگی، جسمانی شکل ہوگی لیکن روح اور اسپرٹ کی عدم موجودگی تصور کیا جانا لازمی ہے۔ یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ علماء کرام و ذاکرین ممبروں سے خواب اور معجزات بیان کر حاضرین و بانیان مجالس کو متاثر تو کر دیتے ہیں لیکن کردار و اعمال سے پیغام کربلا نہیں جھلکتا۔ مولانا مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ کی حیات و کارنامے صرف مظفرپور کے مومنین و مومنات کے لیے نعمت و رحمت ہے بلکہ آپ کے آفاقی کردار و اعمال ان تمام علماء کرام، ذاکرین اور عزاداران سید الشہدا کے لیے ہے جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ان کے لخت جگر کا پرسہ دینا چاہتے ہیں اور امام زمانہ عجل کے اصحاب و انصار میں شامل ہونے کی تمنائ ہیں۔ پروردگار مولانا مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ کو جوار محد و آل محمد میں مقام عطا ٕ فرمائے! اور ہملوگوں کو ان کے ذریعے دی گئی تعلیم و تربیت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے!